۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
مولانا حیدر عباس رضوی

حوزہ/ کربلا کو فقط 61 ہجری تک محدود کرنا غیر قابل قبول ہے۔آج بھی کربلا باقی ہے بس وقت کے ظالم و جابر کو پہچاننا ہوگا جس سے اظہار بیزاری اور نفرت کربلا کا ابدی پیغام ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،دہلی/کربلا ظلم و ظالم سے بر سر پیکار رہنے کا درس دینے والی سر زمین کا نام ہے۔آج سے تقریبا 1400 سال قبل یزید جیسے ظالم و جابر نے جب اپنا سر غرور بلند کیا نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنی قربانی دے کر اسلام کے چمنستان کو ایسا آباد کیا کہ آج دنیا بھر میں صدائے لبیک یا حسین گونج رہی ہے۔

دوارکا موڑ کے سیوک پارک میں واقع حسینیہ میں مذکورہ خیالات کا اظہار کرتے ہوئے خطیب مجلس مولانا سید حیدر عباس رضوی(لکھنئو) نے بیان کیا کہ الحسین فی الفکر المسیحی جیسی کتاب لکھنے والے غیر مسلم نے یہی کہا تھا کہ ہمارا سلام ہو امام عزت حسین ابن علی پر جنہوں نے اپنی شہادت کے ذریعہ دنیا بھر کے مظلوموں کو ظالموں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گفتگو کا ہنر سکھایا ہے۔
کربلا حق اور باطل کی جنگ تھی جو آج بھی جاری ہے۔کربلا کو فقط 61 ہجری تک محدود کرنا غیر قابل قبول ہے۔آج بھی کربلا باقی ہے بس وقت کے ظالم و جابر کو پہچاننا ہوگا جس سے اظہار بیزاری اور نفرت کربلا کا ابدی پیغام ہے۔

مولانا سید حیدر عباس رضوی نے شب عاشور کی مناسبت سے مصباح الہدی،قتیل نینوا،چہرہ اسلام کی ضیاء امام حسین علیہ السلام کے اس خطبہ پر سیر حاصل گفتگو کی جسے امام عالیمقام نے شب عاشور بیان فرمایا تھا۔جس میں اپنی عزت و کرامت کو نبوت و رسالت کا مرہون منت قرار دیتے ہوئے مولا نے کہا تھا اس خدا کا شکر جس نے ہمیں نبوت کے ذریعہ صاحب کرامت بنایا ہے۔

حمد پروردگار کے مختلف اقسام جیسے لسانی،فعلی،حالی کی تشریح کرتے ہوئے خطیب مجلس نے حاضرین کے سامنے فخر رازی جیسے مفسر کا قول بھی نقل کیا۔

مولانا سید حیدر عباس نے تاکید کی کہ سخت سے سخت اور دشوار سے دشوار مراحل حیات میں شکر و سپاس پروردگار نہیں فراموش کیا جانا چاہئے کیونکہ حدیث کے مطابق سب سے پہلے جنت میں حمد بجا لانے والوں کو بلایا جائے گا۔
پڑوسی ملک پاکستان میں روز عاشور عزاداران مظلوم کربلا پر ہونے والے ظلم و ستم کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے مولانا نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ عزاداران مظلوم کربلا کے حفاظتی انتظامات کا بندوبست یقینی بنایا جائے ساتھ ہی ہندوستانی حکومت سے بھی یہی مطالبہ کہ روز عاشور کسی بھی طرح کے حادثہ سے نمٹنے کے لئے اعلی افسران کو سخت ہدایات جاری کئے جائیں تا کہ امام حسین جیسے محسن انسانیت کا غم بھرپور منایا جا سکے۔

قابل ذکر ہے کہ شب عاشور کی مناسبت سے سیرت امام و اصحاب امام کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا سید حیدر عباس نے بیان کیا کہ ایک بھری دوپہر میں زہرا کا بھرا گھر اجڑ گیا یہاں تک کہ امام حسین کا ششماہہ مجاہد بھی تیر حرملہ کا نشانہ بنا۔درد آمیز لہجے میں مولانا نے مصائب کے دوران جب یہ کہا کہ عزادارو! علی اصغر جیسے شیر خوار کے لئے جب حسین جیسے غیرتمند نے سوال آب کیا تو آپ کو بھی یاد کیا کہ کاش ہوتے کربلا میں اور دیکھتے کہ فوج اشقیاء نے طفل صغیر بھی رحم نہ کیا۔یہ سنتے ہی شور گریہ بلند ہوا۔
قابل ذکر ہے روز عاشور عصر عاشور کی مجلس کے علاوہ بعد مغرب شام غریباں کی مجلس پر اس عشرہ مجالس کا اختتام ہوگا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .